دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سچر کمیٹی کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس
راجندر سچر نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ2019 میں ہندوستان کو ہندو
راشٹر کا اعلان کروانے کی آر ایس ایس کوشش کرے گا ۔ مگر ان کے مطابق یہ
کام اتنا آسان نہیں ہوگا ، کیونکہ بہت سے ہندو بھی اس کی مخالفت کریں گے۔
راجندر سچر کا کہنا ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ سکھ اور عیسائی بھی نہیں
چاہتے ہیں کہ ملک ہندو راشٹر بنے ، اس لئے آر ایس ایس کی راہ کافی مشکل
ہوگی ۔
میڈیا کو دئے اپنے انٹرویو میں ملک میں گزشتہ کچھ وقت میں مسلمانوں
کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں جسٹس سچر
نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی تشدد کے معاملات میں اضافہ ہوا
ہےاور یہ صرف عدم برداشت کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ عدم برداشت سے بری چیز ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی جیت کے بعد یہ خطرہ مزید بڑھ گیا
ہے۔
جسٹس سچر نے کہا کہ سب سے زیادہ خطرناک اشارہ یوگی آدتیہ ناتھ کو یوپی کا
وزیر اعلی بنایا جانا ہے، یہ آر ایس ایس کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا ایک
حصہ ہے، ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مودی صرف چہرہ ہیں۔ جسٹس سچر نے کہا کہ
آر ایس ایس طے کر چکا ہے کہ 2019 میں بی جے پی کی اقتدار میں واپسی کے
بعد وہ ہندوستان کو ہندو راشٹر اعلان کروائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن
پارٹیاں اس خطرے کو بھانپ نہیں پا رہی ہیں۔
جسٹس سچر نے کہا کہ 2019
کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے یوگی آدتیہ ناتھ کو
وزیر اعلی بنانے کے اشارے کو گہرائی سے دیکھنا چاہیے۔ سچر نے کہا کہ سارے
ہندوؤں کا آر ایس ایس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہندوؤں کی مختلف ثقافت،
روایت اور کھانے پینے کی عادت ہیں۔ جسٹس سچر کے مطابق آر ایس ایس اتر
پردیش میں ملی جیت کے بعد پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج بھلے ہی کم لوگ اس بارے میں کھل کر بولتے ہوں لیکن بہت
سے لوگ ہندو راشٹر نہیں چاہتے۔ بی جے پی کا پارٹنر اکالی دل بھی نہیں
چاہتا کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیا جائے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ سکھ
اور عیسائی بھی اس کی مخالفت کریں گے۔ جسٹس سچر نے کہا کہ 2019 کے خطرے سے
بچنے کے لئے وہ تجویز دیں گے کہ تمام مخالف جماعتوں کو ایک ساتھ آ جانا
چاہئے۔
اس سوال کے جواب میں کہ بی جے پی کے کئی لیڈران کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان
میں اب اور زیادہ دنوں تک مسلمانوں کو اقلیت نہیں تسلیم کیا جانا چاہئے ،
راجندر سچر نے کہا کہ نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی ، جین اور سکھ بھی مذہبی
اقلیتیں ہیں ، کیوںکہ ان کی آبادی اکثریتی طبقہ سے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ
اگر ہم مسلمانوں کو اقلیت سے نکال دیں گے تو ہم اقوام متحدہ کے ممبر نہیں
رہ سکتے ہیں ۔ عالمی برادری ہمارا بائیکاٹ کردے گی۔ اقوام متحدہ مائناریٹی
کمیشن نے یہ بات واضح طور پر ہے کہہ رکھی ہے کہ ہر ملک میں اقلیتوں کیلئے
ایک خصوصی کمیشن قائم کیا جانا چاہئے ۔